وہ دِن بہت اچھے تھے

وہ دِن بہت اچھے تھے جب میں چھوٹا بچہ تھا۔ چوںکہ میرا ننیال اور ددیال دونوں ایک ہی گاؤں کے تھے تو کبھی نانی کے گھر کبھی دادی کے پاس بس ایسے ہی سارا دن گزر جاتا۔ گلی کے ایک طرف جہاں نانا ابو کا گھر تھا میں سب کو مامو اور خالہ بُلاتا اور دوسری طرف جہاں دادا ابو کا گھر تھا میں سب کو چاچو اور پھوپو بُلاتا تھا۔  صُبع کا ناشتہ نانی کے ہاتھ کا ہوتا تھا، نانی تندور کی روٹی پہ مکھن لگا کر کھلاتی اور اِس کے بعد سارا دِن بھوک نہ لگتی۔ گھر میں کبھی مہمان آجاتے تو ہمیں نئے کپڑے پہنا کر امی سُرمہ لگا دیتیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کرتیں کہ مہمانوں کے سامنے زیادہ بولنا نہیں۔ اور مہمانو کے چلے جانے کے بعد اکسر ہماری کلاس ہوتی کیونکہ چُپ رہنے والے تو ہم تھے نہیں۔ پھر ایک دن ابو جی نے ساتھ والے گاؤں کے سرکاری سکول میں مجھے داخل کروا دیا اور میں دوستوں کے ساتھ سکول جانا شروع ہو گیا۔ گھر سے امی ایک کپڑے میں روٹی باندھ دیتیں جو میں دوپہر کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھا لیتا، جاتے ہوئے ناشتہ نانی کے ہاتھ کا کرتا اور ایسےپورا دِن گزر جاتا۔ ہمیں آنے والے کل کی کوئی فکر نہ تھی، استاد کی مار ہمارے لیے روز مرہ زندگی کا حصہ تھی لیکن اس کے باوجود ہمارے دل میں اُستاد کا بہت احترام تھا۔ ہم ٹاٹ پر بیٹھتے اور مِٹی سے کھیلا کرتے تھے۔ سکول کے ساتھ سے ایک صاف پانی کا نالہ گزرتا تھا جِس میں ہم آدھی چھُٹی کے ٹائم اپنی تختیاں صاف کرتے تھے، اور  اکسر جب ہمیں گرمی ستاتی تو ہم اسی نالے میں نہا بھی لیتے تھے۔ ایسے ہی ہنستے کھیلتے ہم نے پرئمری کلاس کا امتحان پاس کر لیا۔
بہت سارے دوستوں نے پڑہائی چھوڑدی، کچھ کھیتی باڑی میں لگ گئے اور کچھ کو اُن کے والدین نے کسی مکینک کے پاس کام سیکھنے کے لیے ڈال دیا۔ مُجھے ابو جی نے ایک اور سکول میں داخلہ دلوا دیا جو گھر سے تقریباََ تین کلومیٹر دور تھا۔ نانی اب بیمار رہنے لگی تھیں تو امی نے کہا اب ناشتہ گھر سے کر کے جایا کرو، اور اِس طرح مجھے وہ مکھن والی روٹی ملنا بند ہو گئی۔ اب میں گھر سے امی کے ہاتھ کی روٹی کھاتا، ایک روٹی امی ساتھ باندھ دیتیں اور میں سکول چلا جاتا۔ یہ دِن بھی بہت اچھے تھے۔ میں چھٹی والے دن امی سے چھُپ چھُپا کے نانی کے گھر چلاجاتا اور نانی کے ہاتھ کی وہ روٹی کھا آتا۔ اکسر نانا جی سے کچھ پیسے بھی بٹھور لیتا اور اُن کے بنٹے لے کر سارا دِن گلی میں دوستوں کے ساتھ کھیلتا۔ جب میں ساتویں کلاس میں ہوا تو میرے گاؤں سے میں اکلوتا سکول جانے والا بچہ تھا۔ اب مجھے سکول آتے جاتے تھکاوٹ محسوس ہونا شروع ہو گئی تو ابو جی نے مجھے ایک سائیکل لے دی۔ ایسے ہی کچھ وقت گزرہ اور میں نے مِڈل بھی پاس کر لیا۔ 
چونکہ اُس وقت ہمارے قریبی علاقے میں کوئی ہائی سکول نہیں تھا تو ابو جی نے مجھے شہر کے ایک سرکاری سکول میں داخل کروا دیا اور آنے جانے کو ایک موٹر سائیکل لے دی۔ اُن دِنوں میں ہواوں میں تھا گاؤں سے باہر کی دُنیا میرے لیے بلکل نئی تھی۔ میں دوستوں کے ساتھ کلاسیں چھوڑتا اور خوب گھومتا پھرتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میں میٹرک میں فیل ہوگیا تب مجھے پہلی بار ابو جی سے ڈانٹ پڑی، اِسی دوران نانی جی کا بھی انتقال ہو گیا، اور پھر میں پپہلی بار کھل کے رویا۔ مجھے احساس ہوا کہ میرا بچپن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اب نانی کے ہاتھ کی روٹی پھر کبھی نہیں ملے گی۔ سب دوست اپنے اپنے کام میں مگن تھے، پھر اسی ٹینشن  کہ کہیں میرے دوستوں کی طرح ابو جی  بھی مجھے کسی کام پہ نا لگا دیں میں نے پڑہنا شروع کر دیا۔ اب سکول اور کالج کے دِن ختم ہو چکے ہیں، میں چھوٹے شہر سے بڑے شہرکی ایک یونیورسٹی میں آگیا ہوں۔ اب گاؤں جاتا ہوں تو لوگ ڈاکٹر صاب کہ کے بلاتے ہیں۔ اب بہت کچھ بدل گیا ہے!۔
اب چھوٹی چھوٹی باتیں دل پہ لگتی ہیں، اب نانی کی مکھن والی روٹی بہت یاد آتی ہے، اب امی کی لگائی ہوئی وہ کلاسیں بہت یاد آتی ہیں جو اکسر مہمانوں کے جانے کے بعد لگتی تھیں۔ اب وہ بچپن بہت یاد آتا ہے۔
بہت اچھے تھے وہ دِن!۔

Comments

Popular posts from this blog

تبدیلی

آدھے اھورے خواب