تبدیلی

 فروری کا مہینہ شروع ہو چکا ہے! موسم میں بدستور اور حسبِ معمول بدلاؤ آرہا ہے۔ بدلتے ہوے موسم میں ہمیں بہت سی موسمی بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پرتاہے۔ نزلہ، زکام اور کھانسی ایسی بیماریاں ہیں جن سے اس موسم میں تقریباً ہر دوسرا فرد دوچار ہوتا ہے۔ ثابت ہوا کہ تبدیلی کا عمل اتنا آسان نہیں! یہ تو ایک قدرتی تبدیلی ہے جسے ہماری صحت اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتی باوجود اس کےکہ یہ تبدیلی ہماری زندگیوں میں کوئی پہلی بار برپا نہی ہو رہی بلکہ ہم اور ہمارے اباؤاجداد نے اپنی گزشتہ زندگیوں میں بھی ہر 365 دن کے بعد اس تبدیلی کا سامنا کیا ہے۔ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم زہنی یا سماجی تبدیلی کو اتنی آسانی سے قبول کر لیں۔
 ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ جانتے بوجھتے کہ وہ غلط سوچ رکھتے ہیں یا کسی سماجی مسئلہ پر غلط سوچ اپنائے ہوئے ہیں اپنی رائے یا کردار کو درست نہیں کرتے بلکہ اس غلط کو صحیع ثابت کرنے پر مُصِررہتے ہیں۔ اور اگر آپ کر کرا کے اُنہیں اس بات پہ لے بھی آئیں کہ ان کی سوچ کا زاویہ غلط ہے تو ایسے میں بھی ایسے لوگوں کی طرف سے آپ کو دو طرح کا ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے، اول تو یہ کہ ان کا ردِعمل اتنا شدید ہوتا ہے کہ اس سے پوری بات کا موضوع ہی بدل جاتا۔ یا پھر انتہائی شائستہ انداز میں آپ سے کہتے ہیں میاں ہوتا ہو گا ویسا بھی جیسا آپ کہہ رہے ہیں لیکن جومیں نے کہا ایسا بھی ہوتا ہے۔ یعنی ایک بات پہ دو رائے۔
 اب بات یہاں ختم نہیں ہوتی! موسم کی تبدیلی تو محض ایک بہانہ تھی جو اتفاقی ہمارے موضوع (تبدیلی) سے مماثلت رکھتا ہے۔ بات یہ کرنی تھی کہ آخر کیا ایسی وجہ ہے کہ ہمیں ہماری سوچ یا کردار کو تبدیل کرنا اتنا بڑا مسئلہ لگتا ہے۔ شاید یہ ہماری ایگو۔۔۔۔ کی وجہ سے! کہ ہمارے اندر کی جو ایک ’’میں‘‘ نام کی چیز ہے کہیں اُسے کوئی دھجکا نا لگے۔ یا پھر شاید اس لیے کہ لوگ کیا سوچیں گے۔ یا پھر شاید اس لیے کہ ہمارے اندرقبولیت(
Acceptance) نہیں ہے۔ ہم چیزوں کو ویسے قبول ہی نہیں کرتے جیسی کہ وہ ہوتی ہیں۔ شاید ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم ہر چیز کا اپنی دوربینی نظر سے جائزہ لیں اور پھر اُس سے اپنی مرضی کی اصطلاح اخذ کر لیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر قبولیت(
Acceptance)کے عنصر کو لے کے آئیں۔ کیوںکہ زندگی بذاتِ خود مسلسل تبدیلی کا نام ہے، اپنی سوچ اور کردار میں لچک پیدا کریں تاکہ اپنے فیصلوں اور سوچ کو بدلنا آپ کے اور میرے لیے اتنا مشکل نہ رہے جتنا آج ہے۔ اور ہاں ایک بات اور، موسمی تبدیلی ایک الگ چیز ہے۔ اگر آپ بھی کسی موسمی بیماری میں مبتلا ہیں تو کسی اچھے ڈاکٹر سے رابطہ کریں اُس کے لیے Acceptance سے کام نہیں چلے گا۔
چند نہایت محترم دوستوں کی دل آزاری کی لیے معذرت.

 بقلم: فیصل شہزاد

Comments

Popular posts from this blog

آدھے اھورے خواب

وہ دِن بہت اچھے تھے