Posts

وہ دِن بہت اچھے تھے

وہ دِن بہت اچھے تھے جب میں چھوٹا بچہ تھا۔ چوںکہ میرا ننیال اور ددیال دونوں ایک ہی گاؤں کے تھے تو کبھی نانی کے گھر کبھی دادی کے پاس بس ایسے ہی سارا دن گزر جاتا۔ گلی کے ایک طرف جہاں نانا ابو کا گھر تھا  میں سب کو  مامو اور خالہ بُلاتا اور دوسری طرف جہاں دادا ابو کا گھر تھا میں سب کو چاچو اور پھوپو بُلاتا تھا۔  صُبع کا ناشتہ نانی کے ہاتھ کا ہوتا تھا، نانی تندور کی روٹی پہ مکھن لگا کر کھلاتی اور اِس کے بعد سارا دِن بھوک نہ لگتی۔ گھر میں کبھی مہمان آجاتے تو ہمیں نئے کپڑے پہنا کر امی سُرمہ لگا دیتیں اور ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کرتیں کہ مہمانوں کے سامنے زیادہ بولنا نہیں۔ اور مہمانو کے چلے جانے کے بعد اکسر ہماری کلاس ہوتی کیونکہ چُپ رہنے والے تو ہم تھے نہیں۔ پھر ایک دن ابو جی نے ساتھ والے گاؤں کے سرکاری سکول میں مجھے داخل کروا دیا اور میں دوستوں کے ساتھ سکول جانا شروع ہو گیا۔ گھر سے امی ایک کپڑے میں روٹی باندھ دیتیں جو میں دوپہر کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل بانٹ کر کھا لیتا، جاتے ہوئے ناشتہ نانی کے ہاتھ کا کرتا اور ایسےپورا دِن گزر جاتا۔ ہمیں آنے والے کل کی کوئی فکر نہ تھی، استاد کی مار ہمارے لیے

آدھے اھورے خواب

ہم اکسر اِس بات کا رونا روتے ہیں کہ ہمیں زندگی میں وہ سب کچھ نہیں مِلا جس کی ہمیں خواہش تھی، یا جو ہمیں مِلنا چاہئے تھا۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید یہ رونا بلکل فضول ہے۔ شاید ہمیں کسی چیز سے محرومی جیسی نعمت کا اندازہ ہی نہیں! زرا سوچیں! اگر آج ہماری تمام خواہشات پوری ہو جایں، یا ہمیں وہ سب کچھ مِل جائے جو ہم چاہتے ہیں، تو کیا ہو گا! شاید ہماری زندگی اُس ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ہو جائے گی جو اگر زیادہ دیر تک ٹھہرا رہے تو اُس میں بدبو اور کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں! وہ آگ جو آج ہمارے اندر لگی ہوئی ہے کہ زندگی میں کچھ کرنا ہے شاید وہ بھی دھیمی پڑ جائے! وہ مقصد جو ہم نے اپنی زندگی کو دے رکھا ہے شاید وہ  مقصد بھی ختم ہو جائے! اور عین ممکن ہے کہ وہ خواہشات یا خواب جن کی تکمیل ہم چاہتے ہیں تو اُن کے پورا ہونے پہ اُن کا نتیجہ ہماری سوچ سے یکسر مختلف ہو! اس لیے کچھ خوابوں کا ادھورا رہنا بہت ضروری ہے!۔  بحثتِ نفسیاتی علوم کے طالب علم کے میرا اُن تمام نفسیاتی نظریات سے بھی تھوڑا سا اختلاف ہے جو اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کی ضروریات و خواہشات جس قدر دوسروں سے اچھے طریقے پوری ہوں گی اُس

لاہور

لاہور کا شمار پاکستان کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ یہ زندگی سے بھرپور، تاریخی اور ایک پُر اسرار شہر ہے۔ یہ وہ شہر ہے جس میں آپ کو ہر طرح لوگ دیکھنے کو میلیں گے۔ یہ وہ شہر ہے جس میں صبح کے وقت ٹریفک سِگنل پہ آپ کو مزدوری کی غرض سے کھڑے لوگ مِلیں گے، تاکہ اُنہیں اپنے ضروریاتِ زندگی کے لیے اپنی عزتِ نفس کا سودا نا کرنا پڑے، اُنہیں کسی کے آگے ہاتھ نا پھیلانے پڑیں۔ پھر اُسی ٹریفک سگنل پہ سارا دن اپنی عزتِ نفس کو بالائے طاق رکھتے ہوے آپ کو بھیک مانگتے لوگ نظر آئیں گے۔ اور اکسر اوقات آپ کو اُسی سِگنل پر رات گئے کچھ  عورتیں  اور  خواجہ سراء  بھی مِل آجائیں گے جو اپنی چند ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے اپنی عزتِ نفس اور جسم دونو کا سودا کرنے پر مجبور کھڑے نظر آتے ہیں۔ جو کہ اس شہر کی پُر اسراریت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ یہاں پر رہتے ہوے آپ کا ہر طرح کے لوگوں سے سامنا ہو گا۔ آپ کو ایسے لوگ بھی ملیں گے جو انتہائی خودغرض ہوں اور ایسے لوگ بھی نظر آئیں گے جنہوں نے اپنی زندگی اِنسانیت کے لیے وقف کر کھی ہو۔ اگر لاہور کی بات کی جائے اور لاہور کے کھانوں کی بات نہ کی جائے تو بات ادھوری رہ جا

خوشی کے نام ایک خط

 خوشی!۔ Dear                السلام علیکم!۔                                     آپ کا میرے ساتھ رہنا میرے لیے کسی پاپڑ بیلنے سے کم نہیں ہے۔ جب آپ میرے ساتھ ہوتی ہو تو مجھے زندگی کی بہت ساری تلخ حقیقتوں کو لے کے منفی رویہ اپنانا پرتا ہے، ایسی تمام حقیقتیں جو مجھے دُکھ اور مایوسی کی طرف لے کر جاتی ہیں! بہت مشکل ہے کہ تم ہمیشہ میرے ساتھ رہو، بہت مشکل ہے کہ ہمارا ساتھ ایسے ہی بنا رہے! بہت مشکل ہے کہ میں دُکھ اور مایوسی کے خلاف ایسے ہی منفی رویہ اپنائے رکھوں! عین ممکن ہے کہ یہ ایک دِن مجھ پہ حاوی ہو جائیں! تم بھی شاید کہیں دُور کھڑی یہ تماشہ دیکھ رہی ہو گی اور شاید میرے بُلانے پہ بھی نہیں آؤگی!۔ لیکن شاید اِتنا مشکل بھی نہیں ہے کہ ہم یونہی ساتھ ساتھ چلتے رہیں شاید اگر ہم تھوڑی سی کوشش کریں تو ایسا ممکن ہے! اگر میں ماضی کی طرف ایک نظر دوڑاؤں تو ہم اکثر اُن کاموں میں ساتھ تھے جب میں بغیر کسی غرض کے کسی کے کام آیا۔ ہم تب بھی ساتھ تھے جب میں کسی وجہ کے کسی کی مدد کا سبب بنا۔ اور ہاں! اور شاید ہم تب بھی ساتھ تھے جب کبھی میں نے  سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر خالصتاً اپنی ذات کے لیے کوئی کام کیا

مُحبت کا دِن

کافی دن سے سوشل میڈیا پہ ایک بات چل رہی ہے, ویلنٹائن کا بائیکاٹ کریں، یہ غیر اسلامی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت انسان کا شروع دِن سے ایک المیہ رہا ہے کہ یہ تفرکات میں بٹا ہوا ہے۔ یہ اپنے لیے خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے اور جب اِس سے اور لوگ بھی استفادہ حاصل کرتے ہیں تو خود ہی اس کی مخالفت بھی شروع کر دیتا ہے۔ ہر سال فروری کے مہینے میں سوشل میڈیا پر ایک شورمچتا ہے کہ ویلنٹائن ایک یہودی فتنہ ہے اس کا بائیکاٹ کریں، یہ بلکل غیر اسلامی ہے اور بہت کچھ!لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم ویلنٹائن ڈے کو اسلامی اقدار کے اندر رہتے ہوے نہیں منا سکتے؟ ویسے تو میرا یہ ماننا ہے کہ محبت کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہونا چاہئیے۔ کیونکہ جِتنا زیادہ ہم لوگ اپنی زندگیوں میں منفی رویہ اپنائے ہوے ہیں  اُس کو ختم کرنے کے لیے صرف ایک دِن کافی نہیں ہے۔ ہاں تو ہم ویلنٹائن کو اسلامی بنانے کی بات کر رہے تھے تو یار جِتنے بھی اس قسم کے تہوار ہوتے ہیں یہ کسی مخصوص مذہب اور معاشرے کی میراث نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ان کے پیچھےصرف اور صرف حضرتِ انسان اور انسانیت کی خوشی کا نظریہ کارفرما ہوتا ہے۔  کیا ہی اچھا ہو اگر ہم ویلنٹ

گلی کا آخری کُتا

شام کو قمر بھائی کے کافی اصرار پر اُردو بازار جانا ہوا۔ کافی ٹائم ہم اُدھر گھومتے پھرتے رہے۔ کچھ کتابیں خریدیں، اُدھر ہی سامنے ایک بازار سے ڈِنر کیا اور واپس ہوسٹل آگئے۔ تھکاوٹ کافی ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے’’ماضی کے مزار‘‘ کو پڑھا کیوںکہ میں نے جب سے اس کتاب کو پڑہنا شروع کیا ہے، تب سے اس نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ یہ کتاب اپنے ہر لفظ، ہر لائن اور ہر ورک میں ماضی کے ان گنت راز سموئے ہوے ہے۔ خیر! رات کے 12 بجے ہم اپنے طے کئے ہوے ٹائم ٹیبل کے مطابق سو گئے۔ صبح  دیر سے آنکھ کُھلی اور سر بھی کچھ بوجھل ساتھا تو سوچا آج یونیورسٹی سے چھٹی کرتے ہیں۔   چونکہ اگلے چار دن میں ہماری کوئی کلاس نہیں ہونی تھی اس لئے میں نے پیکنگ کی اور گھر نِکل گیا۔ سردیوں کا موسم چل رہا ہے اس لئے دِن کب گزر گیا پتہ ہی نہی چلا۔ شام کو کھانے سے فارغ ہو کے گھر والوں کے ساتھ تھوڑی دیر گپ شپ کی اور دوبارہ اپنے بستر میں چلا گیا۔ میں لِحاف میں منہ چھپائے لیٹا ہوا تھا کہ گلی سے ایک چھوٹے سے کُتے کے کراہنے کی آواز آئی، تھوڑی دیر میں نے اس پہ کوئی توجہ نہ دی لیکن تھوڑی دیر بعد جب اُس کتے کی آوازوں میں

تبدیلی

 فروری کا مہینہ شروع ہو چکا ہے! موسم میں بدستور اور حسبِ معمول بدلاؤ آرہا ہے۔ بدلتے ہوے موسم میں ہمیں بہت سی موسمی بیماریوں کا بھی سامنا کرنا پرتاہے۔ نزلہ، زکام اور کھانسی ایسی بیماریاں ہیں جن سے اس موسم میں تقریباً ہر دوسرا فرد دوچار ہوتا ہے۔ ثابت ہوا کہ تبدیلی کا عمل اتنا آسان نہیں! یہ تو ایک قدرتی تبدیلی ہے جسے ہماری صحت اتنی آسانی سے قبول نہیں کرتی باوجود اس کےکہ یہ تبدیلی ہماری زندگیوں میں کوئی پہلی بار برپا نہی ہو رہی بلکہ ہم اور ہمارے اباؤاجداد نے اپنی گزشتہ زندگیوں میں بھی ہر 365 دن کے بعد اس تبدیلی کا سامنا کیا ہے۔ تو پھر کیسے ممکن ہے کہ ہم زہنی یا سماجی تبدیلی کو اتنی آسانی سے قبول کر لیں۔  ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو یہ جانتے بوجھتے کہ وہ غلط سوچ رکھتے ہیں یا کسی سماجی مسئلہ پر غلط سوچ اپنائے ہوئے ہیں اپنی رائے یا کردار کو درست نہیں کرتے بلکہ اس غلط کو صحیع ثابت کرنے پر مُصِررہتے ہیں۔ اور اگر آپ کر کرا کے اُنہیں اس بات پہ لے بھی آئیں کہ ان کی سوچ کا زاویہ غلط ہے تو ایسے میں بھی ایسے لوگوں کی طرف سے آپ کو دو طرح کا ردِعمل دیکھنے کو ملتا ہے، اول تو یہ کہ ا