مُحبت کا دِن

کافی دن سے سوشل میڈیا پہ ایک بات چل رہی ہے, ویلنٹائن کا بائیکاٹ کریں، یہ غیر اسلامی ہے وغیرہ وغیرہ۔ حضرت انسان کا شروع دِن سے ایک المیہ رہا ہے کہ یہ تفرکات میں بٹا ہوا ہے۔ یہ اپنے لیے خوشی کا سامان پیدا کرتا ہے اور جب اِس سے اور لوگ بھی استفادہ حاصل کرتے ہیں تو خود ہی اس کی مخالفت بھی شروع کر دیتا ہے۔ ہر سال فروری کے مہینے میں سوشل میڈیا پر ایک شورمچتا ہے کہ ویلنٹائن ایک یہودی فتنہ ہے اس کا بائیکاٹ کریں، یہ بلکل غیر اسلامی ہے اور بہت کچھ!لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ہم ویلنٹائن ڈے کو اسلامی اقدار کے اندر رہتے ہوے نہیں منا سکتے؟ ویسے تو میرا یہ ماننا ہے کہ محبت کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں ہونا چاہئیے۔ کیونکہ جِتنا زیادہ ہم لوگ اپنی زندگیوں میں منفی رویہ اپنائے ہوے ہیں  اُس کو ختم کرنے کے لیے صرف ایک دِن کافی نہیں ہے۔
ہاں تو ہم ویلنٹائن کو اسلامی بنانے کی بات کر رہے تھے تو یار جِتنے بھی اس قسم کے تہوار ہوتے ہیں یہ کسی مخصوص مذہب اور معاشرے کی میراث نہیں ہوتے بلکہ ان کے پیچھے ان کے پیچھےصرف اور صرف حضرتِ انسان اور انسانیت کی خوشی کا نظریہ کارفرما ہوتا ہے۔
 کیا ہی اچھا ہو اگر ہم ویلنٹائن کے دن ابو جی کو گلے سے لگا کے کہیں ابو جی میں آپ میری زندگی کا بہت قیمتی اثاثہ ہیں، آج میں جس مقام پہ ہوں یہ سب آپ ہی کی بدولت ہے۔ ہمارے اتنے سے عمل سے شاید وہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی تمام ترپریشانیاں بھول جائیں! کیا ہی اچھا ہو کہ ہم بازار جائیں کوئی اچھا سا گِفٹ لیں اور یہ گِفٹ امی کو دیں اور اُنہیں یہ بتایں کہ آپ نے ہمیشہ ہماری ضرورت کے لیے اپنی ضروریات کی قربانی دی ہے تو یہ صرف آپ کے لیے ہے! کیا ہی اچھا ہو کہ اس دِن ہم اپنے پیار کرنے والوں اور گھر والوں کے لیں کوئی اچھی سے میٹھی چیز بنا کے اُنہیں کھلایں اور اُنہیں بتایں کہ یہ میٹھی چیز آپ کا اُن سب کے لیے پیار ہے لیکن اُن کے پیار کے آگے یہ میٹھی چیز بھی پھیکی ہے! اپنے ماں، باپ، بہن، بھائیوں اور تمام اُن لوگوں سے جو آپ کی قدر کرتے ہیں اپنی محبت کا اظہار کرتے رہا کریں تاکہ آپ کا پیار، محبت ایسے ہی بنا رہے۔ 
لازمی نہیں کہ ہم سب اِن سب باتوں سے متفق ہوں۔ شاید ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں تنقید برائے تنقید کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔مسائل کو حل کرنے کے بجائے ہمیں مسائل پیداکرنے اور اِن مسائل پہ بحث کرتے ہوئے زندگی گزارنے کی عادت ہو چکی ہے۔ پنجابی کی ایک مثال ہے کہ ’’بکری نے دُدھ دِتا تے اوہ وی مینگناں پا کے‘‘ ۔ زیادہ دُور نا جائیں اپنی زاتی زِندگیوں میں دیکھ لیں تو ہمیں اس مثال کی سمجھ آجائے گی۔ ہم وہ سب کچھ کرتے ہیں جو اس دن کی مناسبت سے ضروری ہے لیکن پھر بھی ہم اس دِن کی اہمیت ماننے سے قاصر ہیں۔ جس طرح زینب کا قاتل زینب کے قتل کے بعد جنازے میں سب سے آگے تھا اِسی طرح ویلنٹائن ڈے پہ بھی اکسر وہی لوگ سب سے زیادہ اس لی مخالفت میں بول رہے ہوتے ہیں جو باقی دِنوں میں وہ سب کچھ کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں جو ویلنٹائن کے دِن سے منصوب ہو چکا ہے۔
اور باقی رہی بات اُن لوگوں کی جو اِس دن اخلاقیات کی تمام حدود پھلانگ کر اپنے لیے رنگینی کا سامان پیدا کرتے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ایسے لوگ باقی دِنوں میں کیا کوئی کسر اُٹھا رکھتے ہیں جو وہ اس دن نہیں کریں گے۔ ایسے لوگوں کا محبت یا پھر ویلنٹائن ڈے سے سِرے سے کوئی تعلق ہے ہی نہیں جِن سے ہم نے اِس دن کو منسوب کر رکھا ہے۔ محبت کو صرف محبت رہنے دیں اِسے کسی بھی غیر اخلاقی ہرکت کے ساتھ منسوب کرنا خود محبت کے ساتھ ناانصافی ہو گی۔

"When we love, we always strive to become better then we are. When we strive to become better then we are, every thing around us becomes better too".
Paulo Coelho        
The Alchemist  

Comments

Popular posts from this blog

آدھے اھورے خواب

تبدیلی

وہ دِن بہت اچھے تھے