گلی کا آخری کُتا

شام کو قمر بھائی کے کافی اصرار پر اُردو بازار جانا ہوا۔ کافی ٹائم ہم اُدھر گھومتے پھرتے رہے۔ کچھ کتابیں خریدیں، اُدھر ہی سامنے ایک بازار سے ڈِنر کیا اور واپس ہوسٹل آگئے۔ تھکاوٹ کافی ہو رہی تھی لیکن اس کے باوجود میں نے’’ماضی کے مزار‘‘ کو پڑھا کیوںکہ میں نے جب سے اس کتاب کو پڑہنا شروع کیا ہے، تب سے اس نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ یہ کتاب اپنے ہر لفظ، ہر لائن اور ہر ورک میں ماضی کے ان گنت راز سموئے ہوے ہے۔ خیر! رات کے 12 بجے ہم اپنے طے کئے ہوے ٹائم ٹیبل کے مطابق سو گئے۔ صبح دیر سے آنکھ کُھلی اور سر بھی کچھ بوجھل ساتھا تو سوچا آج یونیورسٹی سے چھٹی کرتے ہیں۔
 چونکہ اگلے چار دن میں ہماری کوئی کلاس نہیں ہونی تھی اس لئے میں نے پیکنگ کی اور گھر نِکل گیا۔ سردیوں کا موسم چل رہا ہے اس لئے دِن کب گزر گیا پتہ ہی نہی چلا۔ شام کو کھانے سے فارغ ہو کے گھر والوں کے ساتھ تھوڑی دیر گپ شپ کی اور دوبارہ اپنے بستر میں چلا گیا۔ میں لِحاف میں منہ چھپائے لیٹا ہوا تھا کہ گلی سے ایک چھوٹے سے کُتے کے کراہنے کی آواز آئی، تھوڑی دیر میں نے اس پہ کوئی توجہ نہ دی لیکن تھوڑی دیر بعد جب اُس کتے کی آوازوں میں اضافہ ہوا تو مجھے اُلجھن ہونا شروع ہو گئی۔ کیونکہ مجھے پڑہتے اور سوتے وقت کسی قسم کا بھی شور پسند نہیں ہے۔ خیر میں رضائی میں منہ دِیے لیٹا رہا اور کُتا مسلسل کراہتا رہا۔ قریب ایک گھنٹے کے بعد میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور نیند بھی آنکھوں سے چِڑیا کے پنکھ لگا کر اُڑ گئی۔ میں بستر سے بوجھل قدموں کے ساتھ اُٹھا اور امی سے پوچھا ’’امی دروازے کی چابی کِدھر ہے میں اس کُتے کو دیکھوں اِسے کیا مسئلہ ہے‘‘ امی نے نیند آلود آواز میں جواب دیا ’’سو جاؤ جاکے گلی میں اور بھی لوگ رہتے ہیں کوئی اور دیکھ لے گا اُسے‘‘ تو چونکہ اِرادے پہلے ہی کمزور تھے اور باہر سردی بھی تھی تو میں واپس اپنے بستر پہ جا کے لیٹ گیا۔ کچھ دیر بعد اُس کی آواز میں کافی کمی آگئی، کچھ منٹ کے بعد ایک نحیف سی آواز آتی جیسے اب اُس میں بولنے کی سکت نہ رہی ہو۔ اور پھر کچھ منٹ کے بعد وہ آواز بھی بند ہو گئی۔ چونکہ میری نیند پہلے ہی اُڑ چکی تھی اِس لئے ساری رات اِسی سوچ و پریشانی میں گزر گئی کہ کُتے کو کسی نے باہر نکل کے دیکھا ہو گا یا نہیں!
 صبح جب امی نماز کے لئے اُٹھیں تو میں نے چابی لی، دروازہ کھولا اور گلی میں جا کے دیکھا! تو گلی کے ایک کونے میں ایک چھوٹا سا کُتا مرا پڑا تھا۔ غالباً یہ وہ ہی کُتا تھا جو رات کو چیخ رہا تھا!
شائد بھوک اور سردی نے اِس کی جان لے لی!
میرے دادا ابو کہتے ہیں:
’’جس گھر میں کُتا ہوتا ہے اُس گھر میں رحمت کا فرشتہ نہیں آتا۔‘‘
 شائد اِس گلی میں اب روزانہ رحمت کا فرشتہ آیا کرے گا کیونکہ اِس گلی میں اب کوئی اور کُتا نہیں بچا یہ اِس گلی کا آخری کُتا تھا! 

Comments

  1. Salam,
    Doctor siab aap blog ka theme change kiren. baki sub fit hia.
    مریم نواز اور راناثناءاللہ کی سرگوشیاں پکڑی گئیں، شرمندگی کا سامنا
    #Maryam_Nawaz #Rana_Sanaullah #Rana #PML_Nawaz #PML
    http://haripurtoday.blogspot.ae/2018/03/maryum-nawaz-rana-sanaullah.html

    ReplyDelete
    Replies
    1. ashiq sahib hosla afzai ka shukria inshAllah ap ki suggestion pe main lazmi sochu ga :)

      Delete

Post a Comment

Popular posts from this blog

آدھے اھورے خواب

تبدیلی

وہ دِن بہت اچھے تھے