سردار گُرونت سنگھ

بہت عرصہ پہلے کی بات ہےکہ فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں میں ایک شخص رہا کرتا تھا جس کا نام مولا بخش تھا۔ اوراس کا ایک دوست سردار گرونت سنگھ بھی اپنے بیٹے، بہو اور پوتے کے ساتھ وہیں پر مقیم تھا۔ مولا بخش اور گرونت سنگھ کا دوستانہ آپس میں بہت گہرا تھا اور دونو مشکل کی ہر گھڑی میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
سب کچھ بلکل ٹھیک چل رہا تھا کہ گاؤں کو ایک وبائی مرض نے آن گھیرا اور دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ لقمۂ اجل بن گئے جن میں گرونت سنگھ کے بہو اور بیٹا بھی شامل تھے۔ اس واقعے کا گرونت سنگھ کے زہن پر اس قدر اسر ہوا کہ وہ ایک چارپائی تک محصور ہو کر رہ گیا۔ مولابخش نے جب گرونت سنگھ کی یہ حالت دیکھی تو اُسے کافی سمجھایا بجھایا:
’’کہ دیکھ گرونتے اب جوہونا تھا وہ تو ہو گیا، ہونی کو کون ٹال سکتا ہے تو اب اپنے پوتے کا سوچ وہ جوان ہو رہا ہے! وہ بھی تو تیرا ہی خون ہے اپنے لئے نا سہی اُس کے لئے خود کو سمبھال لو۔‘‘
ان باتوں کا گرونت سنگھ پر کافی اسر ہوا لیکن وہ پہلے والی بات نہ بن سکی۔ ابھی گرونت سنگھ کچھ سمبھلا ہی تھا کہ پاکستان اور ہندوستان الیحدگی کا اعلان ہو گیا! طے پایا کہ وہ مسلمان جو اپنی مرضی سے پاکستان جانا چاہیں جا سکتے ہیں اور وہ ہندو اور سکھ جو اپنی مرضی سے پاکستان چھوڑ ہندوستان جانا چاہیں جا سکتے ہیں۔ یہ سب سنتے ہی دونو طرف ایک قہرام سا مچ گیا، اور دونو طرف انسانیت کا قتلِ عام شروع ہو گیا۔
پہلے پہل تو گرونت سنگھ کو لگا کہ کچھ دن میں حالات بہتر ہو جائیں گے اور پھر سے سب کچھ پہلے کی طرح نارمل ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی آفت آن بھی پڑی تو مولابخش اس کی ڈھال بن کر اس کی حفاظت کرے گا۔ لیکن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے اور بلآخر گرونت سنگھ نے اپنے پوتے کو بلا کر سمجھایا کہ اب ہم یہاں محفوظ نہیں ہیں تو تو ہندوستان جانے والی کسی ٹرین میں سوار ہو کے وہاں چلا جا وہاں سب ہمارے اپنے لوگ ہیں۔ میں جب کچھ بہتر ہو جاؤں گا تو تیرے پیچھے آجاؤں گا۔ جب لڑکا نا مانا تو گُرونت سنگھ نے سے سمجھایا کہ مولا بخش اسے کچھ نہیں ہونے دے گا وہ اس کی فکر نہ کرے اور ہندوستان چلا جائے۔ دادا کے سمجھانے پر لڑکے کو بات سمجھ میں آگئئ اور وہ وہاں سے چلا گیا لیکن بدقسمتی سے رستے میں ایک ایک نامعلوم قاتل کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس نامعلوم قاتل کا نام مولابخش تھا۔ اور یہ بات جب گُرونت سنگھ کو پتہ چلی تو وہ صدمے سے چل بسا۔

بقلم: فیصل شہزاد 

Comments

Popular posts from this blog

آدھے اھورے خواب

تبدیلی

وہ دِن بہت اچھے تھے